سیاسی اور معاشرتی کالم
- کوئی تو قدم آگے بڑھائے
- قاہرہ کے تحریر اسکوئر سے لیاری کے چیل چوک تک
- زندگی كو میری قبر كا پتہ بتانا ہوگا
- نیا پاکستان ہمارے لئے نا گزیر کیوں ہے ؟
- ایک اور المناک حادثہ
- !سال نو کے آغاز سے پہلے
- چند لمحوں کا فاصلہ
- قائد تحریک الطاف حسین کی تصنیف “فلسفہ محبت”کی تقریب رونمائی
- انتظار حسین بھی ہمارے درمیان نہیں رہے
- یہ کہانی کون لکھ رہاہے
- فوزیہ قصوری کی تحریک انصاف سے علیحدگی ۔۔ ایک لمحہ فکریہ
- آہ ۔ جنید جمشید، زندگی اللہ کی امانت ہے
- ایک تصویر اور ایک سوال؟
- یہ وطن ہمارا ہے
- ایک ملاقات
- الیکشن 2013
- سیاسی دنگل
- معذرت کے ساتھ
- میرا ووٹ “نئے پاکستان ” کے لئے ہے
غیر طبع شدہ نطمیں
- اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔
- نیا سال
- اب بس بہت ہو چکا ۔۔۔۔
- آج کا روشن دن
- آج تھرکی صحرائی زندگی کے لئے ہمیں جاگنا ہو گا
- اب جینے کے کئی معنی ہیں
- جسم کی جلتی دھوپ
- ہمیں رہائی ملے
- موت کتنی ارزان ہے !
- اس کے باوجود
- بوری میں بند لاش
- ہم نے سوچا
- نیاسال
- یہ جنگل ہے
- ایک تنہا نغمہ رقص میں بے حال ہے
- اسکے خال وخد
- اے محرم تو سرخرور ہے سدا
- غیر تخلیقی لمحوں کا درد
- ایک تصویر بناؤں
- رات کے آخری پہر میں
- محبت کے موسم میں
- انتظار کا راستہ
- ہم چیخناچاہتے ہیں
- بے دروازہ گلی
- اس کی آخری تصویر
- شب و روز کی گردش سے گزرتا ہو ایہ سال
- سانحہ پشاور کے شہید طلبا کے نام
- زندگی کے درمیان
- امکانات سے باہر
طبع شدہ نظمیں
- سورج اندھیرے پھینک رہا ہے
- بند کھڑکیاں
- محبت ایک پوشاک
- روشنیوں سے دور
- آج کا دن
- جسم کشتی بن گئے
- پناہ درکار ہے
- وعدوں کی کتاب
- ایک درخت کے نیچے
- اجنبی بننےسے پہلے
- گڑیا کی نیند
- تم نہیں لوٹ سکتیں
- غنیم کا لشکر
- روشنی کی پکار
- پرندوں سے بھرا آسمان
- کھلونوں کے پھول
- تمہاری دہلیز پر
- چوڑیاں گم ہوگئیں
- زندہ لمس کی خواہش
- خواب ۔۔۔۔۔۔ امن کے شہر کا
- بارش ہورہی ہے
- وقت ٹوٹ گیا ہے
- ہونٹوں کو چوم کر
- شام کے کنارے پر
- سیا ہ ہاتھ اور جگنو
- اندر کا چراغ
- خوابوں کی فصیل
- ابابیلیں اڑ رہی ہیں
- نیا موسم
- کہانی جو لکھی نہیں جا سکتی
- رات کا آخری پہر
- جب دستک ابھرتی ہے
- سیا ہ موسموں کا دروازہ
- شعلہ بدن اور شبنمی لباس
- مٹی کی خواہش
- قاتل کون ہے؟
- عمر کی بوڑھی لکیریں
- کوئی تیسرا شخص
- سیلاب میں
- ہاتھ آزاد ہیں
- پتنگ کے فاصلے
- دوسرے کنار ے پر
- وہ مجھے دیکھتی ہے
- نامعلوم سے معلوم تک
- جنگل کی راکھ
Archives
میرے استاد محترم جناب جاذب قریشی
جناب جاذب قریشی نہ صرف میرے استاد ہیں ،ان کی صحبت اور محفلوں میں شرکت نے میری فکری سوچ کے دائرے کو وسیع تر کیا اور انہوں نے میرے لفظوں کو جو لایعنی تھے ،انہیں معنی کے پیرھن سے آراستہ کیا ، میری شاعری پر انہوں نے بہت بار گفتگو کی اور نثری نظموں کے حوالے سے انہوں نے میری شاعری پر ایک طویل مقدمہ لکھا ، میری شعری کتاب ” دوسرے کنارے ” پر انہوں نے بہت محنت کی اور خاص کر میری شعری پہچان کے لئے انہوں نے اکمل نویدؔ کا نام تجویز کیا ۔میری شاعری میں جو گویائی ہے وہ انہی کا ہنر ہے ، انہوں نے مجھے شاعر بنا کر آپ لوگوں نے سامنے پیش کیا ۔
ان کا یہ فیصلہ کیسا ہے ، یہ آپ لوگ ہی بتا سکتے ہیں
Recent Comments